The Timeless Poetry of Mirza Ghalib
Mirza Ghalib, without a ne, the master of Urdu literature, is well remembered and loved all around the world because of his deeply romantic poetry. To’s ghazals on love and heartbreak as well as the most cutting exploration of the realities of existence advocate the ideal human condition.
Mirza Ghalib’s work is accessible yet worth it, to say the least. He is among those poets whose couplets resonate with the heart and psyche of individuals who bothered to read them. Mirza Ghalib’s poetry beautifully encompasses love, separation, transience of human existence, and the fragility of human beings.
Diwan-e-Ghalib, composed by Mirza Ghalib himself, is one such book every lover of lit is obliged to own. To put it simply, people still appreciate this particular poet and his work, so much that even today his couplets are used in social settings.
Mirza Ghalib himself has made a significant contribution to the many different worlds of poetry and indeed showed us how to appreciate the art itself. His poetry is layered, filled with symbols and meaning that everyone is easily attracted to. Words painted by Mirza Ghalib crafted the beauty, yet still appealed as a soft and gentle touch to the reader.
Last but not least, Mirza Ghalib’s impact on the map of Urdu literature has forever solidified his status, as his write ups will surely influence a plethora of future writers all over again.
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے
ہزاروں غم ہیں، ایسی حالتوں میں کوئی ہنس دے تو غم ہلکا سا ہو جائے
دھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
رہئیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ مر گئے پر دیکھیے دکھلائیں کیا
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں تو ہی جب مہرباں نہیں ہوتا
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
ہنوز غالب و دیوانہ ہوں میں دیکھیے کب یہ دل ٹھکانے آئے
تم سے چھوٹے گا نہ مر کر بھی تعلق غالب تم میری خاک میں چھپ کر بھی اتر آؤ گے
30 Powerful Winter Quotes That Will Inspire You to Embrace the Beauty and Overcome the Chill
25 Unforgettable Happy Birthday Wishes That Will Make or Break Their Day
Click on the download button below to download these Mirza Ghalib Poetry.
download