Discover the Top 24 Unique Aspects of Faiz Ahmad Faiz’s Poetry
Faiz Ahmad Faiz was one of the most renowned poets in the history of Urdu literature; his efforts toward literature could not be surpassed in any manner, either in quantity or the depth and beauty he infused in every piece. He is remarkable for great humanism apart from sheer commitment to social justice through his poetry.
The most loved concept of Faiz Ahmad Faiz‘s poetry is that he wrote such a language in it, no one would have problems to understand it. His words spoke directly to the reader without any boundaries of time and space. That is why his work remains a rejoicer inside people‘s hearts even after his death.
Faiz Ahmad Faiz is one of those literary geniuses whom few would dispute as great, along with the other great poets of the world. All academia people have read and appreciated his works, and no one fails to recall him in the course of discussing other works about some questions of social injustice and human rights, and about how literature can change humanity. He embodied the timeless power of poetry, inspiring the people.
In short words, the Faiz Ahmad Faiz’s poetry is a reflection both of his mind as well as soul and the society in which he lived. His works now become an inspiration and hope for many today. Faithful to its timeless quality, the legacy of Faiz Ahmad Faiz shall endure through generations.
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ، میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات۔
ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے۔
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے، چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب آج تم یاد بے حساب آئے
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
تمھاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
گُلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
ایک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک ایک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے شبِ فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
نا جانے کس لیے امید وار بیٹھا ہوں اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں
جانتا ہے کہ وہ نہ آئیں گے پھر بھی مصروف انتظار ہے دل
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں
اُٹھ کر تو آ گئے ہیں تیری بزم سے مگر کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
If you want to download this Faiz Ahmad Faiz post, click on the download button.
Very good collection