Amjad Islam Amjad: A Literary Icon of Contemporary Urdu Poetry
A name is worshipped, one name: Amjad Islam Amjad is a contemporary and contemporary of modern Urdu poetry born August 4, 1944 in Lahore, Pakistan He made an enormous contribution for himself as minstrel and playwright columnist to the world to remain marked.
Amjad Islam Amjad has been probing the mortal psyche pretty deeply on love, loss, and empirical reflections through his poetry. He is so good at taking complex mortal feelings and saying them in simple yet profound words that he has an admirer following. One of his remarkable workshops, “Barzakh,” shows the poet’s lyric ability to provide compendiums with regard to his reflective and introspective world.
Besides poetry, Amjad Islam Amjad is remembered for strong work for television and theatre. His plays, like “Waris” and “Dehleez,” were concentrated on social issues and human dealings with immense sensitivity and intelligence. His workshop have not only entertained but also educated cult, hence making him a noted personality in Pakistani media.
The numerous accolades and the Pride of Performance conferred on Amjad Islam Amjad suffices to prove that he has survived to influence Urdu literature and inspire new generations of muses and pens to icing in a deep and continuous impact in erudite geography
مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے
اتنے خدشے نہیں ہیں راستوں میں جس قدر خواہشِ سفر میں ہیں
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی
شبنمی آنکھوں کے جگنو کانپتے ہونٹوں کے پھول ایک لمحہ تھا جو ‘امجد’ آج تک گزرا نہیں
بات تو کچھ بھی نہیں تھی لیکن اُس کا ایک دم ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے یہ بھی تو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے
سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے
درد کا رستہ ہے یا ہے ساعتِ روزِ حساب سیکڑوں لوگوں کو روکا ایک بھی ٹھہرا نہیں
دامِ خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے لفظ اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے
وہ سامنے ہے پھر بھی دکھائی نہ دے سکے میرے اور اُس کے بیچ یہ دیوار کون ہے
پھر آج کیسے کٹے گی پہاڑ جیسی رات گزر گیا ہے یہی بات سوچتے ہوئے دن
زندگی درد بھی دوا بھی تھی ہم سفر بھی گریز پا بھی تھی
آنکھوں میں کیسے تن گئی دیوار بے حسی سینوں میں گھٹ کے رہ گئی آواز کس طرح
بچھڑ کے تجھ سے نہ جی پائے مختصر یہ ہے اس ایک بات سے نکلی ہے داستان کیا کیا
لرزش نگاہ میں لہجے میں لکنت عجیب تھی اس اولیں وصال کی وحشت عجیب تھی
تمہی نے کون سی اچھائی کی ہے چلو مانا کہ میں اچھا نہیں تھا
تم سے بچھڑ کر پہروں سوچتا رہتا ہوں اب میں کیوں اور کس کی خاطر زندہ ہوں
اس کے لہجے میں برف تھی لیکن چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے
ایک نظر دیکھا تھا اس نے آگے یاد نہیں کھل جاتی ہے دریا کی اوقات سمندر میں
جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے کچھ منظر تو بن نہیں پاتے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں
یہ جو سائے سے بھٹکتے ہیں ہمارے ارد گرد چھو کے ان کو دیکھیے تو واہمہ کوئی نہیں
بے ثمر پیڑوں کو چومیں گے صبا کے سبز لب دیکھ لینا یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی
ہر بات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے
سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت سو ہم تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں
سائے لرزتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں رہتے تھے انسان جہاں اب دہشت رہتی ہے
آنکھ بھی اپنی سراب آلود ہے اور اس دریا میں پانی بھی نہیں
حادثہ بھی ہونے میں وقت کچھ تو لیتا ہے بخت کے بگڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی
ہر سمندر کا ایک ساحل ہے ہجر کی رات کا کنارہ نہیں