Ahmad Faraz: The Timeless Essence
Literary giant Ahmad Faraz was the embodiment of an ever-inspiring figure in Urdu literature. He belonged to that rare breed of people with unbelievable depth and sensitivity toward human emotions that he described; his words sliced across the narrow boundary of culture and geography to find universal appeal in the complexity of human beings’ experiences.
Here starts Ahmad Faraz‘s true mastery; he can so poignantly say what hasn’t been said. His creations are very sensitively penned where he brings one closer to one’s innermost thoughts. The themes he broaches on love, loss, or society that hinders life get a raw, honest aftertaste.
Ahmad Faraz was born in Kohat. He bridged the border of traditional and modern expression so well that he made himself one of the most celebrated poets of his times. His legacy is not just a collection of verses but a profound journey into the human spirit. Ahmad Faraz is a source of inspiration for budding writers and voracious readers alike. For his name was always tantamount to depth, beauty, and timeless artistry. His voice goes on in the minds and hearts of those searching for peace in literature.
رنجش ہی صحیح، دل ہی دکھانے کے لیے آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم کہ تُو نہیں تھا تیرے ساتھ ایک دنیا تھی
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو ‘فراز’ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
دل کو تیری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
آج ایک اور برس بیت گیا اُس کے بغیر جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا وقت کا کیا ہے گزرتا ہے، گزر جائے گا
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے
اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام تیرا کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
اور ‘فراز’ چاہیے کتنی محبتی ں تجھے ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
اس زندگی میں اتنی فراحت کس کو نصیب اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جاؤں ہم
دھوندھ اُجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
دل بھی پاگل ہے کہ اُس شخص سے وابستہ ہے جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
کچھ اس طرح سے گزاری ہے زندگی جیسے تمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا
قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں دوریوں میں بھی دلکشی ہے ابھی
عاشقی میں ‘میر’ جیسے خواب مت دیکھا کرو باؤلے ہو جاؤ گے، مہتاب مت دیکھا کرو
تیری باتیں ہی سنانے آئے دست بھی دل ہی دکھانے آئے
تو محبت سے کوئی چال تو چل ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے ‘فراز’ کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی
If you want to download this post, click on the download button.